Zikr Khafi

Different forms of Dhikr

There are three forms of Zikr Allah (1) verbal, vocal, loud (2) verbal, silent (3) Qalbi and spiritual Zikr. The first type is innovation (Bida) according to scholars. However, places of need are excluded such as adhan, takbeer, sermon etc.

(Ibn Kathir 3:495)

The third form, also known as Khaffi or Qalbi Dhikr,  involves secret remembrance of Allah with the heart and soul. This is the remembrance in which no words are spoken, and which even the scribes (angels) cannot hear. Imam Abu Ya’ali narrated on the authority of Hazrat Aisha that the Prophet ﷺ said that the hidden (Khaffi) dhikr that the scribes cannot hear is seventy times more superior than the non-Khafi dhikr.

On the Day of Resurrection, when Allah will gather the creatures for reckoning and the scribes will present their writings, then Allah will say (to the angels): Look if there is any other good deed left of him (that you missed). They will say that they have written down everything that they know. Then Allah Ta'ala will say that there is one good deed that you do not know about, that is Zikr-e-Khaffi. 
(Tafseer al-Mazhari 3:41)

The Virtue of Zikr Khafi in Quran

Allah Ta'ala says:

 اِذْ نَادٰی رَبَّہ‘ نِدَاءً خَفِیَّا۔(مریم) وَفِیْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃِ ذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالیٰ عَبْدَہ‘ صَالِحًا وَرَضِیَ عَنْہُ۔ (تفسیر مظہری)۔

In this verse, Allah Ta'ala remembered one of His righteous servants and liked his act of secret remembrance. (Tafseer Mazhari)

In the commentary of the same verse, Imam Razi says that after Allah Ta'ala commanded the Prophet ﷺ to preach the revelation,  in the very next verse He ordered the Prophet ﷺ to engage in Zikr Allah.

وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ۔ 

And remember your Lord in your heart with fear and devotion, quietly without the loudness of words, in the morning and in the evening and do not be among the heedless.

Sheikh Anwar, may God have mercy on him, said: We do not go beyond the wording of this verse of the Qur'an. So it means remembrance and not prayer, even though prayer is also remembrance. And the obvious meaning of “Wazkur Rabaka" is the heart's remembrance, not the language. Prayer is a linguistic form of dhikr, perhaps that is why Allah did not say the “Ism Rabaka”. And he said, "fearfully" and "secretly". Fear is a function of the heart, AllahTa’la says in the Quran "Believers are those whose hearts are afraid when Allah is mentioned in front of them." And in the hadith of Tirmidhi Sharif, it is narrated from Hazrat Anas, that the Prophet, peace be upon him, said, "Allah will say, ‘take out of the Hellfire the person who remembered me for just one day, or who was afraid to stand before me’."

This verse and its commentary prove that (1) Dhikr refers to the remembrance of the heart. (4) Allah has ordered to perform Zikr-e-Khafi (Qalbi) morning and evening (5) He who does not practice Dhikr every morning and evening is proved to be oblivious to Allah.

The dhikr that is practiced in our chain of Naqshbandia Owaisiah is the dhikr of the heart ( Zikr Khafi or Qalbi). It is performed in the morning and evening and our practice fully conforms with this verse.

The Virtue of Zikr-e-Khafi in Hadith

عَنْ اَبُوْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ خَیْرُ الذِّکْرِ الْخَفِیِّ۔ (الترغیب ۴:۰۶۱) ۔

Abu Saeed Al-Khudri  (may Allah be pleased with him) narrates that, ‘I heard the Holy Prophet (PBUH) say that the best dhikr is the Khaffi (hidden) dhikr’.

وَعَنْ سَعْدِ ابْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ خَیْرُ الذِّکْرِ الْخَفِیِّ۔ 

Hazrat Saad Ibn Abi Waqqas (may Allah be pleased with him) said: I heard the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) say that the best Zikr is the Khaffi (hidden) Zikr.

Although dhikr is obligatory as an absolute worship, we have mentioned the dhikr that we have inherited as a legacy from the Salaf-e-Saliheen and the Sufis, and for the superiority of which there are clear arguments from the Qur'an and the Sunnah. We respect the status quo of Islamic disciplines, consider obligatory duties (Faraiz) as capital, and consider Nawafal as profits, and consider Zikr-e-Qalbi (of the heart) to be the most superior among all types of Zikr, and this is in accordance with the Qur'an and Sunnah. Purification of the heart is achieved by Zikr-e-Qalbi (Khaffi) and purification of the heart is the guarantee of real success.

ذکر الٰہی کی تین صورتیں ہیں (۱)لسانی جہری بلند آوازی (۲)ذکر لسانی سری (۳)ذکر قلبی روحانی۔ قسم اول باتفاق علماء بدعت ہے۔ ہاں ضرورت کے مقامات خارج ہیں جیسے اذان، تکبیر، خطبہ

(ابن کثیر 3:495)
ذکر خفی

سوم قلب اور روح کے ساتھ ذکر خفی ہے۔ یہ وہ ذکر ہے جس میں زبان کو کوئی دخل نہیں، اور جسے کاتبین بھی نہیں سن سکتے۔ امام ابویعلی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس ذکر خفی کو ملائکہ کاتیبین سن نہیں سکتے اسے غیر ذکر خفی پر ستر گنا زیادہ فضیلت ہے۔ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو حساب کے لئے جمع کریگا اور کاتبین اپنی تحریریں پیش کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کہ دیکھو اس کی کوئی نیکی رہ تو نہیں گئی۔ وہ عرض کریں گے ہمیں جو معلوم ہوا سب لکھ لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کی ایک نیکی ایسی ہے جو تم نہیں جانتے وہ ذکر خفی ہے، میں کہتا ہوں کہ ذکر خفی نہ منقطع ہوتا ہے، نہ اس میں فتور آتا ہے۔

(تفسیر مظہری 3:41)

ذکر خفی کی فضیلت قرآن میں 

قال تعالیٰ۔ اِذْ نَادٰی رَبَّہ‘ نِدَاءً خَفِیَّا۔(مریم) وَفِیْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃِ ذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالیٰ عَبْدَہ‘ صَالِحًا وَرَضِیَ عَنْہُ۔ (تفسیر مظہری)۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کو یاد فرمایا اور اس کے اس فعل یعنی مخفی یاد کرنے کو پسند فرمایا۔ 

وقولہ تعالیٰ۔ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً... الخ 

اسی آیت کی تفسیر میں امام رازی ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تبلیغ وحی کا حکم دینے کے بعد متصل ہی اس آیت میں حکم دیا۔ 

بِاَنْ َیذْکُرَ رَبَّہ‘ فِیْ نَفْسِہٖ وَالْفَاءِدَۃُ فِیْہِ اَنَّ اِنْتِفَاعُ الْاِنْسَانِ بِالذِّکْرِ اِنَّمَا یَکْسَلُ اِذَا وَقَعَ الذِّکْرُ بِھٰذِہِ الصِّفَۃِ لِاَنَّہ‘ بِھٰذَا الشَّرْطِ اَقْرَبُ اِلَی الْاِخْلَاصِ وَالتَّضَرُّعِ۔ 

کہ آپ ﷺ اپنے پروردگار کو دل میں یاد کریں، اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی ذکر سے مکمل طور پر مستفید اس صورت میں ہو سکتا ہے جب ذکر میں یہ صفت پیدا ہوجائے کیونکہ اس شرط (یعنی ذکر قلبی) سے ذکر کرنا، اخلاص اور تضرع سے زیادہ قریب ہے۔

فائدہ۔ ذکر خفی مبتدی کو ریا و سمعہ سے محفوظ رکھتا ہے اور منتہی کے لئے ما سوائے اللہ کی محبت سے انقطاع کل اور فنا فی المذکور کا فائدہ دیتا ہے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا من عرف اللہ کل لسانہ

اور تفسیر ابی السعود میں ہے

وَھُوَ عَام’‘ فِی الْاَذْکَارِ کَآفَّۃً فَاِنَّ الْاِخْفَاءَ اَدْخَلَ فِی الْاِخْلَاصِ وَاَقْرَبُ مِنَ الْاِجَابَۃِ۔ 

اخفاء تمام اذکار کے لئے عام ہے، کیونکہ اخفاء (ذکر خفی) میں اخلاص کا عنصر سب سے زیادہ ہے اور قبولیت کے اعتبار سے اقرب ہے۔ 

فائدہ۔ (۱) عبادت کی قبولیت کا انحصار اخلاص پر ہے اور ذکر خفی میں سب سے زیادہ اخلاص پایا جاتا ہے (۲)عبادت کا مقصود قبولیت ہے اور اخفاء اقرب الی المقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام کی اکثیرت نے ذکر خفی پر مواظبت کی ہے اور جن سلسلوں میں سالک کی تربیت کے لئے ذکر جہر لسانی کرایا جاتا ہے وہ صرف مبتدی کے لئے ہے اور منتہی کے لئے ان کے ہاں بھی ذکر خفی پر ہی زور دیا جاتا ہے۔ 

ذکر الٰہی اور ذکر کثیر کے لئے قرآن مجید میں متعدد آیات ملتی ہیں، کہیں ذکر اسم ذات کی تاکید ہے کہیں ذکر قلبی کی تلقین کی گئی ہے جو ذکر کثیر اور ذکر دائمی کی واحد صورت ہے۔ بالخصوص ایک آیت جامع خصوصیات کی حامل ہے۔ 

وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ۔ 

اور یاد کرتا رہ اپنے رب کو دل میں گڑگڑاتا اور ڈرتا اور پکار سے کم آواز بولنے میں، صبح اور شام کے وقتوں اور مت رہ بے خبر۔

اس آیت کی تفسیر مولانا محمد یوسف بنوری نے حضرت انور شاہ  ؒ سے نفخۃ العنبر من ہدی الشیخ انور کے ص 351 پر یوں فرمائی ہے۔

شیخ انور رحمۃ اللہ نے فرمایا: ہم قرآن کی اس آیت کے لفظ سے باہر نہیں جاتے ہیں۔ پس اس سے مراد ذکر ہے نہ کہ نماز، اگر چہ نماز بھی ذکر ہے۔ اور واذکر ربک سے ظاہر مراد ذکر قلبی ہے لسانی نہیں۔ نماز تو ذکر لسانی ہے، شاید اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے واذکر اسم ربک نہیں فرمایا۔ اور فرمایا تضرعا وخیفۃ اور خفیہ نہیں فرمایا۔ خوف دل کا فعل ہے اور از قبیل عقاب ہے یعنی خوف، جیسے فرمایا مومن وہ ہیں جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اور ترمذی شریف کی حدیث صفت ابواب جہنم میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس شخص کو آگ سے نکال دو جس نے صرف ایک دن مجھے یاد کیا، یا وہ میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا۔

اس آیت اور اس کی تفسیر سے ثابت ہوا کہ (۱)ذکر سے مراد ذکر قلبی ہے (۲)ذکر جہری لسانی کے مقابلہ میں ذکر قلبی کو فضیلت حاصل ہے (۳)ترمذی کی حدیث سے ظاہر ہے کہ ذکر دوزخ کی آگ سے نجات دلانے والا ہے (۴)اللہ تعالیٰ نے صبح و شام ذکر کرنے کا حکم دیا (۵)صبح و شام ذکر نہ کرنے والا اللہ سے غافل ثابت ہوا۔ 

ہمارے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں جو ذکر کرایا جاتا ہے وہ ذکر قلبی ہے اور صبح و شام ذکر کرایا جاتا ہے اور اس آیت پر ہمارا پورا پورا عمل ہے۔ 

ذکر خفی کی فضیلت حدیث میں 

عَنْ اَبُوْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ خَیْرُ الذِّکْرِ الْخَفِیِّ۔ (الترغیب ۴:۰۶۱) 

ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ بہترین ذکر، ذکر خفی ہے۔ 

وَعَنْ سَعْدِ ابْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ خَیْرُ الذِّکْرِ الْخَفِیِّ۔ 

حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ بہترین ذکر، ذکر خفی ہے

گو ذکر مطلق مامور بہ ہے، مگر ہم نے قران و حدیث سے متوارث اور متعامل ذکر کو کیا ہے جو بطور میراث ہمیں سلف صالحین اور صوفیہ عارفین سے ملا ہے اور جس کے افضل ہونے پر قران و سنت سے واضح دلائل ملتے ہیں۔ ہم حفظ مراتب کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ فرائض کو راس المال سمجھتے ہیں اور نوافل کو بمنزلہ منافع جانتے ہیں اور اذکار میں سب سے افضل ذکر قلبی کو سمجھتے ہیں اور یہ قران و سنت کے عین مطابق ہے۔ تزکیہ قلب اسی سے حاصل ہوتا ہے اور تزکیہ قلب ہی حقیقی کامیابی کا ضامن ہے۔